نئی دہلی، 7/نومبر (ایس او نیوز /ایجنسی) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے وقف سے متعلق جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے طرز عمل پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے پارلیمانی اور آئینی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔ بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے بیان دیا کہ جے پی سی کو وقف ترمیمی بل 2024 پر صرف متعلقہ افراد اور اداروں سے رائے طلب کرنی چاہیے تھی۔ تاہم کمیٹی نے نہ صرف مختلف مرکزی وزارتوں اور محکموں بلکہ غیر متعلقہ اداروں، جیسے محکمہ آثار قدیمہ، بار کونسل اور آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے بھی مشورے لیے ہیں۔
ڈاکٹر الیاس نے اس امر پر شدید اعتراض کیا کہ کئی ایسے اداروں اور تنظیموں کو مدعو کیا گیا ہے جن کی سماج میں کوئی اہمیت نہیں ہے، جس سے بل کی حمایت میں غیر متعلقہ لوگوں کی رائے حاصل کرنے کی کوشش واضح ہوتی ہے۔ اس سے قبل، جے پی سی میں شامل حزب اختلاف کے اراکین نے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو خط لکھ کر جے پی سی کے چئیرمین، جگدمبیکا پال کے طرز عمل پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
انہوں نے کہا گیا کہ جے پی سی کی میٹنگوں کو اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ حزب اختلاف کے اراکین کو تفصیلی مطالعہ اور رائے دینے کا موقع نہیں مل رہا۔ حزب اختلاف کے 6 اراکین نے ایک بار پھر اسپیکر کو خط لکھ کر چیئرمین کے رویے کی شکایت کی ہے، جس کے باعث جے پی سی میں اتفاق رائے کے بجائے پارٹی مفادات کی بنیاد پر فیصلے کیے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر الیاس نے مزید کہا کہ جب یہ بل لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا تو حزب اختلاف کے اراکین نے اس پر اعتراض کیا تھا اور مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں نے اس کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بل کی تیاری میں مستند مسلم تنظیموں کے اعتراضات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور غیر متعلقہ افراد کی رائے کو نظر انداز کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی کو عجلت میں کوئی رپورٹ پیش نہیں کرنی چاہیے بلکہ پارلیمانی طریقہ کار کے تحت تفصیلی تبادلہ خیال کے بعد کسی متفقہ نتیجہ پر پہنچ کر ہی اسپیکر کو رپورٹ پیش کرنی چاہیے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ جے پی سی کے اراکین جمہوری اقدار اور دستوری تقاضوں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کریں گے۔